جمعۃ المبارک‘ 12 جمادی الاول 1443ھ، &17 دسمبر 2021ء

بھنگ کم خطرناک نشہ، اعصاب کے لیے قوت بخش اور کئی بیماریوں کا علاج ہے۔ سپریم کورٹ 

وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ایک وقت تھا پوست (بھنگ) کو نہایت گٹھیا درجے کا نشہ تصور کیا جاتا تھا۔ بھنگ پینے والوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ یہ فقیروں، ملنگوں کے طبقے میں یہ مقبول نشہ تھا جو انہیں کاہل اور سست الوجود بنائے رکھتا۔ اسکے علاوہ اسکی بہن چرس کو بھی عالمی شہرت حاصل ہے۔ اس سے بھنگ آج تک نالاں ہے۔ حالانکہ چرس صرف خشکی اور گرمی پیدا کرتی ہے۔سرور لاتی ہے۔ اسکے برعکس بھنگ کے بارے میں اب نت نئے انکشافات کر کے ثابت کیا جا رہا ہے کہ یہ کافی فائدہ مند ہے۔ اسکے متوازن استعمال سے کئی بیماریوں میں افاقہ ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کریہ قوت بخش ہے۔ اب حکیموں کو فائدہ ہو گا ، اس خبر سے۔ طبی فوائد اپنی جگہ اگر یہ اتنی ہی فائدہ مند ہوتی تو چینی یوں ہی بھنگ پینے کی وجہ سے بدنام نہ ہوتے۔ انکی کاہلی اور سستی کے افسانے آج تک زبان زدعام نہ ہوتے۔ آج بھی دنیا صرف اسی بھنگ کی کاشت کی وجہ سے افغانستان سے نالاں ہے کیونکہ اسی بھنگ کے پودے سے ہیروئن جیسی اعلیٰ نشہ آور پڑیا بنتی ہے جسے سب آفت کی پڑیا کہہ کر اس کیخلاف سخت اقدامات اٹھانے اور بھنگ کی فصل تباہ کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ خیر ہمیں اپنی فکر کرنا ہو گی۔ تمام تر خوبیوں کے باوجود بہرحال یہ ایک نشہ ہے جو انسان کو سست الوجود اور کاہل بنا دیتا ہے۔ مگر چونکہ ہمارے حکمران اس کی خوبیوں کے قائل ہیں وہ ملک میں اس کی کاشت پر توجہ دے کر اس سے زرمبادلہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کو طبی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو انکی مرضی ۔ حکمرانوں کو کون روک سکتا ہے۔ رہی بات عوام کی تو وہ پہلے کونسا راہ راست پر ہیں کہ بھنگ کی کاشت کے دوسرے مقاصد سے پرہیز کریں۔ انہیں منافع کمانا خوب آتا ہے۔ 

پاکستان میں مہنگائی خطے کے ممالک کی نسبت ڈبل ہے۔ سٹیٹ بنک کی رپورٹ 

اب کوئی سُنے تو کس کی سُنے۔ سٹیٹ بنک مہنگائی کے حوالے سے جو نقشہ پیش کر رہا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں مہنگائی دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔ حکومت کہتی ہے پاکستان میں مہنگائی سب سے کم ہے۔ اب کس کی مانیں۔  سچ اور جھوٹ کا پیمانہ عوام ہیں وہ اس بارے میں منصفانہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔ کیونکہ اشرافیہ کی نہیں عوام کی زندگی مہنگائی سے متاثر ہوتی ہے۔ مہنگائی کاعذاب عوام کو جھیلنا پڑتا ہے جو اس وقت بدترین عذاب سے گزر رہے ہیں۔ ان کی رہی سہی کسر روپے کی بے قدری نے نکال دی ہے۔ بے چارے ’’گھٹ کے مر جائوں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے‘‘ کی حالت سے دوچار ہیں کیونکہ انہوںنے ہی اپنے ووٹوں سے اس غریب دشمن حکومت کو اپنی گردنوں پر مسلط کیا ہے۔ ہمارے ہاں مہنگائی 11.5 فیصد ہے جبکہ بنگلہ دیش میں جسے ہم سے جدا ہوئے 50 برس ہو گئے ہیں، مہنگائی کی شرح 5.4 فیصد ہے۔ اب اگر ہم بولیں گے تو بولو گے کہ بولتا ہے۔ چلیں ہم چپ رہتے ہیں۔ ذر حسان خاور کی ہی سن لیں۔ وہ کہتے ہیں حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے موثر اقدامات کر رہی ہے۔ عوام جلد اسکے اثرات محسوس کرینگے۔ اس سفید جھوٹ کو سن کر اگر کچھ جذباتی لوگ خودکشی کرنے لگیں تو انہیں ضرور روکیے گا کیونکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ جو کہہ رہے ہیں سچ نہیں۔ سچ اگر سننا ہے تو پی ڈی ایم کے مولوی حمد اللہ سے سن لیں وہ کہتے ہیں  وزیر اعظم نے 48 بار مہنگائی کا نوٹس لیا اور ہر بار یعنی 48 مرتبہ مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس سے شاید ہی کوئی انکار کر پائے۔ دیکھتے ہیں مہنگائی کا یہ جن سچ کی تاب نہ لا کر میدان چھوڑتا ہے یا جھوٹ کی طاقت سے مزید مضبوط ہوتا ہے۔ ورنہ عوام کی بددعائیں تو اسے کبھی نہ کبھی لے ڈوبیں گی۔ حکومت کو نہیں مہنگائی کو ۔ کیونکہ پی ٹی آئی کے کھلاڑی ابھی تک کپتان کے ساتھ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ فواد چودھری شہباز گل ، مراد سعید ، حسان خاور اور شیخ رشید کی قیادت میں۔ 

خاتون پروفیسر کا شہباز گل سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے سے انکار 

سمن آباد کالج کی پروفیسر ڈاکٹر فوزیہ نے اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری شہباز گل کے ہاتھوں لینے سے انکار کی وجہ یہ بتائی ہے کہ وہ معاون خصوصی شہباز گل کو ایسی تقریب کا مہمان خصوصی بننے کا اہل نہیں مانتیں۔ اب اس بارے میں بہت سی وجوہات ہوں گی۔ جو لوگ جانتے ہیں شہباز گل کے حوالے سے بہت سے متنازعہ معاملات کو جس میں ہراسگی کے حوالے سے بھی کچھ باتیں زیر گردش رہی ہیں۔ انکی صحافیوں کے ساتھ بدزبانی بھی سب کو معلوم ہے۔ مگر چونکہ وہ مصاحبین میں شامل ہیں۔ ترجمانوں میں سے ایک اہم ترجمان ہیں، اس لیے کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ وہ جس طرح حکومتی اقدامات کی ترجمانی کرتے ہیں اس سے اپوزیشن والے اکثر و بیشتر تلملاتے نظر آتے ہیں۔ زخم کریدنے اور ان پر نمک چھڑکنے میں انہیں مہارت تامہ حاصل ہے۔ اب انہوں نے خاتون پروفیسر کی طرف سے اپنے ہاتھوں ڈگری لینے سے انکار پر دیکھیں کیا خوب تبصرہ کیا ہے۔ کہتے ہیں خاتون مسلم لیگ کے رہنما خواجہ سعد رفیق کی رشتہ دار ہیں۔ یعنی سیاسی مخالفت کی وجہ سے اس خاتون نے معاون خصوصی سے ڈگری نہیں لی۔ اندازہ کریں کہ کہاں سے دور کی کوڑی بجا لائے ہیں۔ یعنی ان کی ذہانت ہمہ وقت میڈیا پر کچھ نہ کچھ سچ جھوٹ بولنے پر مجبور کرتی ہے اور وہ حکمرانوں کی گڈ بک میں جگہ بنانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ جبھی تو مہارت سے  انہوں نے تو ڈگری لینے سے انکار کو اظہار رائے کی آزادی کہہ کر جان چھڑائی ہے۔ 

جنید صفدر کی شادی پر فیاض چوہان عظمیٰ بخاری کیلئے مٹھائی لے آئے 

اگر ایسی نرمی اور مٹھاس جو پہلے ہمارے معاشرتی رویوں میں تھی ہمارے سیاسی رویوں میں بھی لوٹ آئے تو بہت سی تلخیاں ختم ہو سکتی ہیں۔ مریم نواز کے بیٹے کی شادی پر پی ٹی آئی کے وزیر فیاض الحسن چوہان مسلم لیگ ن کی عظمیٰ بخاری کیلئے مٹھائی لائے تو یہ ایک اچھی بات ہے۔ ورنہ اصولی طور پر عظمیٰ بخاری کو شادی کی خوشی میں مٹھائی لانی یا کھلانی چاہیے تھی۔ ویسے بھی یہ شادی کی تقریب بہت باتوں کیلئے یادگار رہے گی۔ اس شادی میں حمزہ شریف ، مریم نواز اور دولہا جنید صفدر نے نغمہ سرائی کر کے اپنی آواز کا جادو جگایا جس کی سب نے تعریف کی۔ اسکے علاوہ سب سے نمایاں بات خود مریم نواز رہیں۔ جی ہاں انکے شادی کی تقریب میں پہناوے پورے ملک میں دھوم مچا گئے۔ سوشل میڈیا پر اکثر نے لکھا کہ شادی کی اس تقریب میں حاصل تقریب مریم نواز تھیں۔ وہ سب سے خوبصورت اور علیحدہ نظر آ رہی تھیں۔ خوشیاں انکے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھیں۔  وہ اپنے بیٹے کی خوشی میں نہال ہو رہی تھیں۔ ان کی بہو بھی ان پر رشک کررہی ہوں گی کہ انہیں ایسی خوش گلو ہی نہیں خوش شکل اور خوش اطوار ساس ملی ہیں۔ خدا کرے یہ شادی کی تقریب تادیر سیاسی مشکلات کا شکار شریف خاندان میں خوشیاں بکھیرنے کا باعث بنے اور یہ سب کچھ دیر کیلئے اپنی سیاسی مشکلات سے نکل کر خاندانی مسرتوں میں کھوئے رہیں۔