طاقت کا منبع اور استعمال

مچل فوکو ایک فرانسیسی محقق ہیں جنہوں نے طاقت کے ماخذ اور اس کے مختلف پہلوؤں پر بہت لکھا ھے – سترویں صدی سے قبل طاقت کو ایک خودمختار اتھارٹی کے ذریعے پر تشدد طریقے سے استعمال کیا جاتا تھا- سترہویں صدی کے بعد سے، تاہم، جیسے جیسے آبادی کی نشوونما اور دیکھ بھال ریاست کی بنیادی ذمہ داری بن گئی، طاقت کے نئے میکانزم ابھرے جو ‘زندگی’ کے نظم و نسق کے ارد گرد مرکوز تھے۔ یعنی طاقت اچھائی اور برائی دونوں کاموں کے لئے استعمال ھونے لگی-
منظم معاشرے میں طاقت کی ہیت اور اس کے استعمال کو regulate کیا جاتا ھے- عوامی طاقت کو کنٹرول اور ریاستی طاقت کو مزید زیادہ کرنے کی تگ و دو جاری رھتی ھے- میڈیا عوامی طاقت کا مظہر – سوشل میڈیا نے طاقت کے مراکز کو شدید نقصان پہنچایا ھے- اب حکومت اور عوامی طاقت کے درمیان ایک فیک ( جھوٹی) طاقت سوشل میڈیا کی شکل میں آ بیٹھی ھے- جو عوام اور حکومت دونوں کے لئے نقصان دہ ھے
اگر سینکڑوں لوگ سڑک پر اکٹھا ھو جائیں تو ہجوم کہلاتا ہے- ہجوم کی نفسیات تخریبی ہوتی ہے- ہجوم میں ذاتی رائے یا سمجھ بوجھ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا- ہجوم کو صرف ھلکا سا محرک چاہیے ہوتا ہے- جیسے ہی پہلا پتھر پھینکا جاتا ہے ، اس کے بعد کچھ سجھائی نہیں دیتا- یہ بے انتہاء طاقت بلا اشتعال اور غیر قانونی طاقت ھے-

اگر سکالرز کسی تعلیمی سیمینار میں حصہ لے رھے ھوں تو وہ علمی طاقت ھے

منتخب اسمبلی کے اندر بیٹھے ھوں افراد اعلی ترین فورم اور جمہور کی قانونی طاقت بن جاتے ھیں –

سٹیڈیم میں میچ دیکھنے والے لوگ تماشائی کہلاتے ہیں – ان کے نعرے اور تالیاں کھیلنے والوں کی ھمت بن جاتے ہیں – یہ یک جہتی کا اظہار اور کھلاڑیوں کو حوصلہ دینے والی طاقت ھے-

پولیس کی یونیفارم پہنا دیں تو یہ قانون نافذ کرنے والی فورس بن جائے گی-

بارڈر پر فرض ادا کرنے والے سرحدوں کے محافظ ہیں

شادی کی تقریب میں ھوں تو باراتی اور جیسے ہی کھانا کھلے گا یہ دوبارہ ھجوم میں تبدیل ھو جائیں گے- شادی ھال سے باھر نکلتے ہی یہ معززین شہر ھوں گے-

طاقت ہر لمحہ، ہر وقت موجود ھوتی ھے البتہ طاقت کی نوعیت اور منبع تبدیل ھوتا رھتا ھے

کوئی بھی طاقت اپنی تعین کی گئی حد اور دیئے گئے علاقے میں موثر ہوتی ھے- اس سے باھر نکل کر وہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ھو جاتی ھے اور معاشرہ اسے قبول نہیں کرتا

یہی نقطہ عالمی نظام میں بھی رائج ھے – غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری بر بریت ھے دفاعی حق نہیں- دھشت گرد بھی یہی طریقہ اپناتے ہیں-