پانی کی بڑھتی قِلت ایک عالمی مسئلہ ؛ بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان متاثرہ ممالک میں شامل ؛ رپورٹیں
دنیا کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے- مختلف عالمی اور مقامی اداروں کی متعدد رپوروٹوں کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں پانی کی کمی اور مسمی شدّت شامل ہے، جس کا براہ راست اثر معیشیت پر ہو گا/
اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 1951 ء میں 5260 کیوبک میڑ پانی فی افراد موجود تھا لیکن 2020 ءمیں اس میں کمی ہو کر صرف 908 کیوبک میڑ پانی فی افراد رہ گیا ہے۔ پاکستان میں پانی کی کمی کی بڑی وجہماحولیاتی آلودگی، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، آسودہ زرعی نظام، ڈیموں کی عدم دستیابی ہے- پانی کی کمی سے سندھ اور بلوچستان متاثرہ صوبے ہیں- ٹھٹہ، بدین، سجاول، کے ٹی بندر، دادو اور سیہون شریف ،
گوادر نصیرآباد، اور جیکب آباد شامل ہیں
عالمی بینک کی چند سال قبل ایک رپورٹ کے مطابق آئندہ 30 برس میں گرمی کی شدت میں اضافے اور بارش میں کمی آنے کے سبب انڈیا کی نصف آبادی کے معیار زندگی پر بہت برا اثر پڑے گا۔
رپورٹ کے مطابق ملک کے وسط میں واقع مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ ریاستیں ماحولیاتی تبدیلی سے سبسے زیادہ متاثر ہوں گی۔
عالمی بینک کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے 60 برس میں درجۂ حرارت میں خاصا اضافہ ہوا ہے اوراس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کی نصف آبادی اسی خطے میں رہ رہی ہےجو سنہ 2050 تک ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خطے ہیں۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ خطے پسماندگی، کمتر میعار زندگی، سڑکوں کی کمی اور بازار تک رسائی کی دشواریوں سےپہلے ہی دو چار ہیں۔ درجۂ حرارت بڑھنے سے ان خطوں کے میعار زندگی میں اور بھی کمی آئے گی۔
موسمی تبدیلی سے نیپال اور افغانستان کو اپنے ٹھنڈے موسم کی وجہ سے فائدہ ہو گا۔ سب سے زیادہنقصان بنگلہ دیش کو پہنچے گا جہاں موسمی تبدیلی کے سبب لوگوں کی آمدنی میں ساڑھے 14 فی صد تک کی کمیآنے کا خدشہ ہےانڈیا کی سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاستوں میں چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش،راجستھان، اتر پردیش اور اورمہاراشٹر شامل ہیں۔ ان ریاستوں میں خشکی اور گرمی کے سبب لوگوں کیآمدنی میں نو فی صد تک کی کمی آ سکتی ہے۔
آنے والے عشروں میں انڈیا میں 60 کروڑ لوگوں کو پانی کی ہلکی یا شدید قلت کا سامنا ہو گا۔ اس سے ملککی مجموعی داخلی پیداوار میں تقریباً تین فی صد تک کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔
بعض رپورٹوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آئندہ 15 برس میں دہلی جیسے کئی بڑے شہروں میں زیر زمین پانی کیرسائی ختم ہو جائے گی۔
۲۰۱۸ میں جنوبی افریقہ کے دورے پر آئی انڈین کرکٹ ٹیم سے کہا گیا کہ کیپ ٹاؤن میں پانی کی شدید قلت کے باعث وہ دو منٹ سے زیادہ نہ نہائیں۔