ریاستیں اور عالمی حالات


مشکلات، حالات سے زیادہ شکست خوردہ سوچ اور عمومی روّیوں کی پیداوار ہوتی ہیں-
نہ عالمی سیاسی حالات ہمارے تابع ہوتے ہیں نہ اپنے ہمسائے ہم خود چنتے ہیں- ریاست کی خوشحالی اور مضبوطی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے-ریاست خوشحال ہو گی تو مضبوط بھی ہو جائے گی- یا شاید مقابلے کی اس دنیا میں ریاست مضبوط ہو گی تو خوشحال بھی ہو سکے گی- مثلا یورپ خوشحال تو تھا لیکن اپنی حفاظت کے لئے امریکہ پر انحصار کرتا رھا ہے- نتیجتا امریکی سوچ ہی یورپی سوچ بنتی گئی- ریاست کا دفاع کسی دوسرے کے ذمے نہیں کیا جا سکتا-اب دولت مغرب سے مشرق کی طرف سرک رہی ہے تو جیو پالیٹیکس تلاطم کا شکار ہے- ریاست کی مضبوطی کا انحصار فوج اور معاشی مضبوطی کے علاوہ، قومی یکجہتی، پالیسی سازی کی صلاحیت، قانون کی حکمرانی اور ھیومین ریسورس کی فنی صلاحیتوں پر بھی ہوتا ہے- بنگلہ دیش، تائیوان، ویت نام، بھارت اور چین کے ھنر مند افراد ان کا سرمایہ ہیں-
آج سے بیس سال قبل ریاستی امور کی انجام دہی مختلف تھی- طاقت کے مراکز محدود تھے- پچھلے بیس سالوں میں عالمی اور ملکی سطح پر جغرافیائی، معاشی، نشرو اشاعت، موسمیاتی تبدیلیوں نے طرز زندگی اور انسانی سوچ کو مکمل تبدیل کر دیا ہے-طاقت کے مراکز تقسیم ہو کر چند ایک سے بہت زیادہ ہو چکے ہیں -ریاست ، عالمی نظام میں مرکزی حیثیت رکھتی تھی، نان سٹیٹ ایکٹر کا کردار کم تھا، ملٹی نیشنل کا رواج اتنا عام نہیں تھا-بیس سال قبل امریکہ واحد سپر پاور تھا، یورپ ( نیٹو) امریکہ کا اتحادی تھا، سویت یونین کا شیرازہ تازہ تازہ بکھرا تھا، دہشت گردی کی جنگ نہیں تھی، ، برطانیہ یورپی یونین کا حصہ تھا، چین اپنی ترقی کے راستے پر ابھی گامزن ہوا تھا، مشرق وسطی اور اوپیک ممالک انرجی ( تیل اور گیس) کے مراکز تھے، تیسری دنیا کے ابھرتے ہوئے ممالک کو ترقی پزیر کہا جاتا تھا، نشرواساعت کے تمام ذرائع مغرب کے پاس تھے، روزگار کے مواقع بہت بہتر تھے-
آج کی دنیا بالکل مختلف ہے- ریاست کی عملداری کو نان سٹیٹ ایکٹرز ، ملٹی نیشنل کمپنیاں، انرجی کی ضروریات، انفارمیشن کی بدلتی شکل ، وسائل کی کمی، موسمیاتی تبدیلیوں نے بہت مشکلات پیدا کر دی ہیں- بیس سال سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، 2005 کا زلزلہ، 2010 اور 2022 کے سیلاب، تھر کی خشک سالی، آبی وسائل کی کمی، گیس کے تقریبا ختم ہوتے ہوئے وسائل، آئی پی پیز کے معاملات ،معدنیات سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت کا فقدان، انفارمیشن کی بدلتی صورتحال نے گوورننس کو مشکل صورتحال سے دوچار کر رکھا ہے-
مارکیٹ اکانومی پر دنیا کے بڑے بڑے بینکوں اور بڑی بڑی عالمی کمپنیوں کا غلبہ ہے-
سہیل عنائت اللہ، ایک پاکستانی آسٹریلیں جنہوں نے مستقبل کی بہتری کے لئے تقریبا ایک دھائی پہلے ایک تھیوری پیش کی تھی-
‏Causal Layered Analysis -وہ کہتے ہیں دنیا میں ہونے والی برق رفتار تبدیلیوں کو مدّنظر رکھ کر مستقبل کے اھداف کا تعین کریں تو سب مسائل پر قابو پایا جا سکتا – مستقبل کو بہتر کرنے کے لئے ایک narrative کو employ کرنا بہت ضروری ھے- اپنے آنے والے کل کو مختلف spacesمیں تلاش کریں-کیونکہ تبدیلی کا عمل ہر جگہ اور ہر وقت ہو رہا ہے اس لئے سارے نقطہ نظر کو بروئے کار لائیں- کسی ایک فرد یا گروپ کی سوچ کافی نہیں- تبدیلی کے لئے سیکھنے کا ایک طریقہ کار وضع کرنا ( learning framework)بہت ضروری ھے-